میں سمندروں کا مزاج ہوں ابھی اس ندی کو پتا نہیں
سبھی ندیاں مجھ سے ملیں مگر میں کسی سے جا کے مِلا نہیں
میرے دل کی سمت نہ دیکھو تم، کسی اور کا یہ مقام ہے
یہاں اس کی یادیں مقیم ہیں، یہ کسی کو میں نے دیا نہیں
مجھے دیکھ کے نہ جھُکا نظر، نہ کواڑ دل کے تو بند کر
تیرے گھر میں آؤں گا کس طرح کہ میں آدمی ہوں ہوا نہیں
میرے دل کی خوشبو سے بھر گیا، وہ قریب سے یوں گزر گیا
وہ میری نظر میں تو پھول ہے اسے کیا لگا میں پتا نہیں
میری عمر بھر کی تھکاوٹیں تو پلک جھپکتے اُتر گئیں
مجھے اتنے پیار سے آج تک کسی دوسرے نے چُھوا نہیں
یہ مقدروں کی لکھاوٹیں جو چمک گئیں وہ پڑھی گئیں
جو میرے قلم سے لکھا گیا اسے کیوں کسی نے پڑھا نہیں
یہ بدر اب بھی سوال ہے کہ بے رخی ہے کہ پیار ہے
کبھی پاس اس کے گیا نہیں کبھی دُور اس سے رہا نہیں