میں شعرکہتے ہوئے سوچتا ہوں یہ اکثر
کیا میرے شعروں سے آئے گا انقلاب کوئی
کہ مجھ سے پہلے کے شاعر بھی کہہ چکے کتنا
نہ روک پایا مسائل کے یہ سیلاب کوئی
میں سوچتا ہوں کہ تہزیب کی نہ باتیں کروں
کہ سننے والوں کو سب ناگوار لگتا ہے
خلوص و پیارکے نغمے سنانا چھوڑ ہی دوں
ہر ایک شخص اب ان سے بیزار لگتاہے
خدا کا ذکر تو کرتے ہیں سب زباں سے مگر
ہے کون پیسے کےآگے جو سجدہ ریز نہیں
میں دیکھتا ہوں بڑےکرب سے جواں ہوتیں
وہ لڑکیاں کہ میسر جنھیں جہیز نہیں
انا کی لاش پہ روتی ہے مفلسی اکثر
ایماندارکہ دولت کو پا نہیں سکتے
عیار ذہنوں نے طاقت بنا لیا خودکو
جو سادہ دل ہیں وہ سطوت کو پا نہیں سکتے
میں شعر کہتے ہوئے سوچتا ہوں یہ اکثر
کیامیرے شعروں سےآئےگا انقلاب کوئی