میںوہ خوشبو لٹاتا ہوں جو برگ و بارسے نکلے
سناتا ہوں وہی نغمہ جو دل کے تار سے نکلے
ستاروں پر پہنچنا ہے تو سرگرمی دکھاؤ تم
خلا کو چیرنے والے بڑی رفتار سے نکلے
دل مایوس کو گردش نہیں معلوم سورج کی
افق کے پار یہ ڈوبے ، افق کے پار سے نکلے
رہے گمنام ماضی میں کچھ اہل فن کہ اب جن کے
ہنر دیکھے زمانے نے تو وہ شہکار سے نکلے
سنواریں اور کچھ اپنے وطن کی سر زمیں یارو
ملیں گے خار دنیا میں جو اس گلزار سے نکلے
ذرا دیکھیں تو دنیا بھر میں قوموں کی ترقی کو
مسلماں ہی ہیں واحد جو بڑے بیکار سے نکلے
خموشی نے بچا لی آبرو الفاظ کی میرے
جو نہ اقرار سے نکلے و نہ انکار سے نکلے
تھی جس میں سطوت شاہی کبھی ان بادشاہوں کی
بڑے بے آبرو ہو کر اسی دربار سے نکلے