میں چلا ہوں ہمیشہ سر سبز راستوں پر مگر
جو راستے ویرانیاں سمیٹے تھے، اُن سے انجان ٹھہرا
نہیں جانتا میں اُن کو جو درد سے ناواقف ہیں
جذبات سمجھتا ہوں مخلوق کے، آخر کو انسان ٹھہرا
بہت کم ہیں وہ لوگ جو نایاب ہیں اس جہاں میں
میں غلط بھی تو ہو سکتا ہوں، فقط یہ میرا گمان ٹھہرا
دلِ مضطر متوجہ نہیں ہوتا اور دماغ کو فرصت نہیں
نجانے کس کائنات میں گم ہے یہ، جو میرا دھیان ٹھہرا
تم کام اگر اشاروں سے لو تو سمجھ جائیں گے لوگ
مگر قیمت تب معلوم ہو گی جو کہو، وہی تو بیان ٹھہرا