میں کچھ کہوں اور نہ تم کچھ کہو شروع کوئی پھر سلسلہ کیوں
مجھ سے نہ پوچھا تو صادر کوئی فیصلہ کیوں ہو
دونوں پہ مرضی ٹھونسی گئی دونوں کی مرضی نہ پوچھی گئی
میں خوش رہوں نہ تم خوش رہو تو پھر یہ سب کچھ بھلا کیوں ہو
مرنے کی طرح سے جیتے رہے وقت نزع بھی جو مر نہ سکے
جب نہ جئے زندگی پورے حق سے تو حق زندگی کا ادا کیوں ہو
جو ہر وقت مجھ سے جفا ہی کرے وفا نہ کرے بےوفا ہی رہے
گلہ کیوں کرے وہ مجھ سے بھلا خفا مجھ سے وہ برملا کیوں ہو
فقط جستجوئے سحر میں رہا جو تنہا مسافر سفر میں رہا
وہ ہی عمر بھر نارسا کیوں ہو مسافر وہ ہی لاپتہ کیوں ہو
عظمٰی مجھے جستجو کے شغل نے سیکھایا ہے یہ خودی کے سفر نے
جو خود اپنے اندر نہیں جھانکتا ہے سر زندگی اس پہ وا کیوں ہو