یہ جانو کے تم پے قرض ہیں ابھی
وہ حق جو کے تم سے ادا نہ ہوئے
ہمیں ان پے دل سے بڑا مان تھا
وہ وعدے جو تم سے وفا نہ ہوئے
تغیر کا اب تک بڑا شور ہے
نیا تو نہیں ہے وہی دور ہے
یا باتیں تمہاری تھیں باتیں محض
یا پردے کے پیچھے کوئی اور ہے
کسی ٹوٹے گھر کی دوا چھن گئی
کسی جھونپڑی کا اجالا گیا
یہ روٹی کی قیمت بڑھی کیا ذرا
غریبوں کے منہ کا نوالہ گیا
کوئی خواب اب دیکھنے سے ڈریں
یا جینے کی پل پل یوں قیمت بھریں
یہی تو ہوا ہے ہمیشہ یہاں
تو حالت کا تم سے گلہ کیا کریں