اداس شب کا مسافر کدھر چلا جائے
سحر کو ڈھونڈنے اب کیا سفر کیا جائے
پڑے ہیں آبلے پاؤں میں جسم ٹوٹ گیا
تیری تلاش میں سایہ بھی مجھ سے روٹھ گیا
خوشی کی آس میں موتی پروئے تھے جتنے
میرے ہاتھوں سے خزانہ تمام چھوٹ گیا
مگر جاری ہے اب تک اک سفر نا تمام