نادار ہی نادار کا احساس کرتا ہے
بیمار ہی بیمار کا احساس کرتا ہے
غریب کو غریب کی غربت کا علم ہے
امیر کب غریب کا احساس کرتا ہے
تندرستی و تونگری امیر کی جاگیر
غریب کون تیرا احساس کرتا ہے
افلاس اور تنگدستی غریب کی میراث
امراء میں کوئی اسکا احساس کرتا ہے
خود غرضی اور بے حسی کا دور آیا ہے
ایسے میں کون کس کا احساس کرتا ہے
دولت کی طمع جس کے اعصاب پہ سوار ہو
کبھی مفلسوں کا وہ بھلا احساس کرتا ہے
اطراف میں افلاس سے نظریں چرانے والا
ان بھائی بندوں کا کبھی احساس کرتا ہے
جسے اپنی بھوک پیاس اپنی دولت کا جنون ہو
ایسا حریص بس اپنا ہی احساس کرتا ہے
نادار ہی نادار کا احساس کرتا ہے
بیمار ہی بیمار کا احساس کرتا ہے