کوئی بھی کسی کا زمانے میں سدا نہ ہوا
ایسا کوئی نہیں اپنوں سے جو جدا نہ ہوا
وہ روز کھیلتا ہے میرے دل اور جذبات سے
اک لمحہ بھی میں اُس سے مگر خفا نہ ہوا
آج بھی مجھے آس ہے اُس کے آنے کی
بچھڑے ہوئے جسے اک زما نہ ہوا
توبہ کرے بندہ اور وہ راضی نہ ہو
ناراض اس قدر تو کبھی مرا خدا نہ ہوا
کشتی کو چھوڑ کر بھنور میں جان بچائے اپنی
ایسا تو مخلص پھر وہ ناخدا نہ ہوا
ابلیس کو ڈبویا تھا اُس کے غرور نے کاشف
اُسی سے پھر اُس سے اک سجدہ ادا نہ ہوا