دل سے دل کا اس قدر بس سلسلہ رکھا گیا
اک چراغ آرزو دل میں جلا رکھا گیا
اک نظر میں پانی پانی ہو گیا سارا بھرم
آج میرے روبرو بھی آئینہ رکھا گیا
نیچی نظریں ، الجھی زلفیں ، سرخ چہرہ ، لب خموش
نام اس قاتل ادا کا کیوں حیا رکھا گیا
امتحاں کچھ یوں وفاداری کا وہ لیتے رہے
آزمائش کا ہدف ہر دن نیا رکھا گیا
دشمن امن و اماں ہے آج جو مانا ہوا
امن کا اس کے ہی آگے فلسفہ رکھا گیا
اس طرح اس نے لیا میری انا کا انتقام
مجھ سے دوری ، دوسروں سے رابطہ رکھا گیا
کون گھر مفلس کے آتا ہے ، ہمیں معلوم تھا
پر در مہما ں نوازی روز وا رکھا گیا
غم نہیں ہے ، اس نے رکھا دلربا نام رقیب
غم ہے یہ ، نام ‘ حسن ‘ کیوں سرپھرا رکھا گیا