جفا میں گزرے دنوں کا کوئی حساب نہیں
ہو جس میں درج مرا حال وہ کتاب نہیں
مجھے مسائل دنیا سے فرصتیں ہیں کہاں
مرے جنون محبت پہ اب شباب نہیں
نبھے گا کیسے مراسم کا سلسلہ سوچیں
تو میری مانگ ہے میں تیرا انتخاب نہیں
حقیقتوں کو یوں دیکھا کہ میری آنکھوں میں
نشاط زیست کا رنگین کوئی خواب نہیں
وفا خریدوں امارت سے ہو نہیں سکتا
غریب شہر ہوں بگڑا ہو نواب نہیں
ہے خوفناک سا منظر ہمارے شہروں میں
بموں کو پھٹتے ہوئے دیکھنے کی تاب نہیں
ہر ایک شے میں ہماری کثافتیں داخل
کہ صاف پانی بھی پینے کو دستیاب نہیں
نظام اب بھی نہ بدلا تو ہے بقا مشکل
کسی بھی شعبے میں ہم آج کامیاب نہیں
وہ ایک شاعر مشرق تھا روشنی کی کرن
پھر اس کے بعد نیا کوئی آفتاب نہیں