نظر بھی ایسی پڑی کسی پر تو اٌس کو بسمل بنا دیا
جو درد سے آشنا نہیں تھے اُنہیں تڑ پنا سکھا دیا
کبھی تو اہلِ نظر کی صحبت سے رنگ چڑھتا عجیب ہے
رہا جو صحبت میں تو اٌسی کو جامِ محبت پلا دیا
کوئی جہاں میں نہ ہوگا ایسا جسے نہ کانٹا چبھا ہی ہو
لگے جو ٹھوکر نظر کمی پر یہی سبق بس پڑھا دیا
مٹایا جس نے خودی کو اپنی اُسی سے قربت بھی اور بڑھی
کبھی جو پردہ رہا تھا حائل اُسی کو اُس نے ہٹا دیا
یہ زندگی مختصر سی ہے بس کوئی نہ غفلت میں ہی رہے
وہ ہی تو ہے زندگی میں دانا کہ جس نے غفلت مٹا دیا
یہی تو کوشش بھی اثر کی ہے اسی پہ اس کو قرار ہے
کوئی بھی بھٹکاہوا ملا جب تو راہ سیدھی دکھا دیا