راہِ دشوار کی جو دُھول نہیں ہو سکتے
ان کے ہاتھوں میں کبھی پھول نہیں ہو سکتے
تیرے معیار پہ پورے نہ اُترنے والے
منصب عشق سے معزول نہیں ہوسکتے
اتنا خوں ہے میرا گلشن میں کہ اب میرے خلاف
پیڑ ہوجائیں مگر پھول نہیں ہوسکتے
حاکمِ شہر کے اطراف وہ پہرہ ہے کہ اب
شہر کے دُکھ اُسے موصول نہیں ہوسکتے
فیصلے جن سے ہو وابستہ وطن کی قسمت
صرف اندازوں پہ محمول نہیں ہوسکتے
خون پینے کو یہاں کوئی بلا آتی ہے
قتل تو روز کا معمول نہیں ہوسکتے
جُنبشِ ابروئے شاہاں نہ سمجھنے والے
کسی دَربار میں مقبول نہیں ہوسکتے