تم تیر و تفنگ، نیزہ و تلوار چلاؤ
ہم آ گئے میدان میں ہتھیار اٹھاؤ
انجام کیا ہوگا یہ مؤرخ پہ ہے چھوڑا
تم جشن فتح جنگ سے پہلے نہ مناؤ
ہم سر سے کفن باندھ کر نکلے ہیں گھروں سے
تم ہم کو یہاں موت کے ڈر سے نہ ڈراؤ
سر اپنا ہتھیلی پہ لیئے کب سے کھڑے ہیں
تکلیف نزع کیا ہے یہ ہم کو نہ بتاؤ
ہم خون کے دریا سے گزر کر یہاں پہنچے
اب ہم کو سیاہ خون کے دھبے نہ دکھاؤ
بچپن سے جوانی ہے عقوبت میں گزاری
تم ہم کو تشدد کے فسانے نہ سناؤ
انگاروں پہ چلنے کا ہنر سیکھ چکے ہیں
تم شوق سے باقی بچے گھر بار چلاؤ
سقراط نہیں پی کے جو مرجائینگے اشہر
تم زہر ہمیں لا کے صبح و شام پلاؤ