نیلی آنکھوں والی لڑکی
Poet: Shakila anjum By: Shakila anjum, Khanewalویران سڑک پر ملی تھی مجھ کو
کل نیلی آنکھوں والی لڑکی
بال سنہری الجھے الجھے
گہرا کاجل بھیگا بھیگا
ہونٹوں پہ اک چپ کی مہر تھی
جانے کونسا دکھ تھا
من میں جس کو چھپاۓ وہ سندر لڑکی
دنیا سے یوں بھاگ رہی تھی
ہاتھ پکڑ کہ میں نے اسکو پاس بھٹایا
اور یہ پوچھا
اے نیلی آنکھوں والی سندر لڑکی
آخر من میں کیا ہے چھپایا ؟
کیا ہے خود کو روگ لگایا؟
پائل تیری کھوئی کھوئی
ہاتھ کا کنگن سویا سویا
رنگت بھی تو ذرد پڑی ہے
کانوں میں بالا بھی نہیں
ہے
بال سنہری کیوں بکھرے ہیں یوں؟
کیوں کاجل آنکھوں کا بہایا؟
آخر کیا ہے روگ لگایا؟
شانے پہ میرے
سر کو رکھ کہ
اس لمحے وہ نیلی آنکھیں
پھر سے ٹوٹ کہ ایسا برسیں
مجھ کو یہ گمان ہوا کہ
جیسے ہوں ساون کے بادل
یا شاید پھر
ندی کے جھرنے
اس کو روتا دیکھ یوں انجم
اپنے من میں سوچ رہی تھی
واللہ
یہ نیلی آنکھوں والی سندر لڑکی
کسی کے عشق میں ڈوبی ہوگی،
تڑپی ہوگی،
آخر ٹوٹ کے بکھری ہوگی،
گر ایسا نہیں تو
پھر یہ آنکھیں
ایسے کیسے برسی ہونگی؟؟؟
آخر اس نے چپ کو توڑا
بیچ ہچکیوں کے
فقط یہ بولا
آنکھوں کی دہلیز پہ میں نے
کچھ سندر خواب سجاۓ تھے
باغ میں جھولے جھولے اور
گیت وفا کے گاۓ تھے
اس سے آگےاور کیا بولوں
تم تو خود سب جان گئ ہو
آخر یہ انجام ہوا ہے
ہاں
پیار کا یہ انجام ہوا ہے
اور یہ سن کہ
آنکھ میں مری اک عکس سا ابھرا
من میں بھی اک شور اٹھا تھا
اندر کوئی چیخ رہا تھا
"'ہاں دنیا کا دستور یہی ہے
پیار پیار تو ہر دل کرتا
پیار کی مالا ہر دل جپتا
مگر
پیار کا تو انجام یہی ہے"'
ہاں
"پیار کا تو انجام یہی ہے"
پر یہ امکان بھی اب زخمِ گُماں بن بیٹھا
کچھ نظر آئے تو لگتا ہے وہی تُو شاید
کچھ نہ ہو سامنے، تو دردِ جہاں بن بیٹھا
عشق؟ ہاں، عشق بھی اک کھیل سا لگتا ہے مجھے
جس میں ہر وار پہ دل ہی بے زباں بن بیٹھا
میں نے خود کو تری چاہت میں مٹا کر دیکھا
اب وہ خالی سا وجودِ ناتواں بن بیٹھا
کون سنتا ہے یہاں شورِ سکوتِ دل کو
میں ہی اک شمع تھا، خود خاکِ دھواں بن بیٹھا
میں نے مانا تھا کہ احساس ہی پوجا ٹھہرے
پر یہ احساس بھی اب ترکِ زباں بن بیٹھا
تُو اگر خواب میں آئے تو اجالہ پھیلاؤ
ورنہ خوابوں کا ہر اک زخمِ نہاں بن بیٹھا
ایک چہرہ تھا مرے دل کی دعا کے اندر
اب وہی چہرہ مرا دشتِ فغاں بن بیٹھا
کبھی لگتا ہے کہ میں خود سے جدا ہو جاؤں
اور کبھی خود ہی مرا سائۂ جاں بن بیٹھا
میں نے سوچا تھا تری یاد سے جا پاؤں کبھی
پر وہی یاد مرا عینِ اماں بن بیٹھا
اسدؔ اب یاد بھی آتی ہے تو جلتا ہوں میں
جیسے ماضی کوئی خنجر کی زباں بن بیٹھا
ہٹا دے تیرگی تنویر میرے ہاتھ پہ رکھ
میں تھوڑی دیر میں اک جرم کرنے والا ہوں
تو ایسا کر مری تعزیر میرے ہاتھ پہ رکھ
میں کتنے روز سے خط کی مہک کو ڈھونڈتا ہوں
سو جھوٹ موٹ کی تحریر میرے ہاتھ پہ رکھ
بہت سے لوگوں کے حق تُو دبا کے بیٹھا ہے
مشقتوں کا صلہ مِیر! میرے ہاتھ پہ رکھ
نہیں سدھرنا تو پھر ساری کوششیں بیکار
تو چاہے جتنی بھی تفسِیر میرے ہاتھ پہ رکھ
تو میرا دوست ہے شعروں کو میرے دیکھ ذرا
جو ہو سکے ہے تو تاثیر میرے ہاتھ پہ رکھ
مرا وجود تو یوں بھی ہے تیرے ایماء پر
مجھے تو ڈال کے زنجیر میرے ہاتھ پہ رکھ
معاملات ترے ساتھ طے کروں گا میں
مگر تُو پہلے تو کشمیر میرے ہاتھ پہ رکھ
تجھے بھی ہو مری بے کیفیوں کا اندازہ
کبھی تو دل کو ذرا چِیر میرے ہاتھ پہ رکھ
کہانیاں نہ رہیں اب، نہ رنگ آمیزی
محبتوں کی اساطیر میرے ہاتھ پہ رکھ
رشیدؔ اس کے عوض جھونپڑی نہ چھوڑوں گا
بھلے تو ساری ہی جاگیر میرے ہاتھ پہ رکھ
سَچ ہے کہ بہت سے مُحبت کے نام پر کھِلواڑ کرتے ہیں
یہ خوابوں کی بَستی کہاں سَچ مِلتا ہے وَفا والو
یہ جھُوٹی دُنیا میں اَکثر اپنے دِل کو بَرباد کرتے ہیں
یہ راہوں میں سَچّوں کے پیچھے پھِرنے والے کم ملِتے
یہ لوگ تو بَس دُکھ دے دِلوں کو بَرباد کرتے ہیں
یہ سچّے جَذبوں کا گہوارہ اَکثر سُونا ہی رہتا ہے
یہ پیار کے نام پر لوگ فَقط شاد کرتے ہیں
یہ دُنیا َبس نام کی خوشیاں سچّے دِلوں کو کب مِلتی؟
یہ راہوں میں اَکثر اپنی سچَّائی کو بَرباد کرتے ہیں
یہ خَلوص کا سایا بھی اَب نایاب نظر آتا ہے ہم کو
یہ مَطلب پَرَست فَقط چہرے ہی آباد کرتے ہیں
یہ وَعدوں کا موسم کب رَہتا ہے گُزر جاتا ہے لَمحوں میں
یہ رِشتوں کے نام پر اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
یہ سَچّے جَذبے بھی مظہرؔ دُکھ سَہتے سَہتے چُپ ہو جاتے
یہ لوگ تو َبس اَپنے مَطلب سے اِرشاد کرتے ہیں
مظہرؔ تُو سَچّوں کے سَنگ چَل بیکار نہ کر دِل کو
یہ جھُوٹ کی دُنیا والے اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں






