وحدت و وجد میں گما تھا میں
آدمی تھا یا پھر خدا تھا میں؟
میرے سب نوحہ خوان دوست رہے
اُن کے دکھڑوں پہ چیختا تھا میں
عرش تک سکھ نے چھان مارا مجھے
پہلوئے رنج میں پڑا تھا میں
دل میں خلقت کے راز دفن کیے
دارِ خاموشی پر چڑھا تھا میں
شب گھر اتنا ڈراؤنا تھا مرا
دیکھ کر خود کو ڈر گیا تھا میں
میرے دُکھ درد مجھ سے تھے بیزار
خود سے مایوس پھر رہا تھا میں
تشنگی چھین کر ہر اِک لب کی
تشنہ کامی کی انتہا تھا میں
اپنے جذبات پر جو نادم ہو
کیا تمہارا کوئی گنہ تھا میں؟
راست گوئی پہ اب یقین آیا
پہلے بکواس کر رہا تھا میں
ہر کسی کے لیے ہوا میں عذاب
آدمی تھا یا بددعا تھا میں
دیر سے پوچھنے کو آئے ہیں
مدّتوں پہلے مر گیا تھا میں