بھتہ خوری، دہشت گردی تھا اس کا منشور
انسانیت کی تذلیل، تضحیک اور بے توقیری
سب وحشی کا دستور
گل کی صباحت روندی اس نے، کرن ہوئی پامال
چام کے دام چلائے اس نے، کچھ نہ کیا خیال
خلقت تھی بے حال
سادیت کا مرض تھا اس کو
تھا متفنی مغرور، عقل و خرد سے دور
وہ ذہنی معذور
اس کے کوہ ستم کے نیچے، بے بس تھے مقہور
جبر کے کوہ پیکر پاٹوں میں پس گئی سب مخلوق
اک لنگور نے تھام رکھی تھی ہاتھوں میں بندوق
سانپ تلے کے اس بچھو نے غارت کی امید
محنت کی تاراج
مجبوروں سے صبح ومسا لیتا تھا باراج
نافذ تھا تریا راج
ظلم کو سہنا، کچھ نہ کہنا
جبر اور حبس کے عالم میں ہر لمحہ
پرنم آنکھیں رہتی تھیں
ذرا بھی ترس نہ آیا اس کو
ہم کتنے تھے مجبور
ظالم تھا نشے میں چور
اس کو بس ایک طلب تھی
مل جائے کوئی حور
راجہ اندر بن بیٹھا تھا
پریاں تھیں چاروں اور
جنسی جنون کے باعث اس کے
جذبے تھے منہ زور
اپنی خون آشامی کی کیا دیتا وہ دلیل
سفہا کی اولاد تھا موذی، شقی اور بخیل
اس متفنی کے شر سے بچنا بہت محال
سارے ساتا روہن اس کے
تھے اجلاف اور ارزال
درخشاں قدریں اور روایتیں، سب کی سب پامال
اخلاقی اقدار کا ان کو ذرا نہ آیا خیال
ذلت اور تخریب کے کتبے سب اس سے منسوب
جنگل کے قانون کی آخر کرتے کیا تاویل
خلقت تھی رنجور
بے بس اور مجبور
حرفِ دعا تھا سب کے لب پر
یارب کر تعجیل
آجائے اب اس دھرتی پر
حضرت اسرافیل