ابھی کچھ کہنا باقی ہے
ابھی کچھ لکھنا باقی ہے
مگر جو کہنا چاہتے ہیں
مگر جو لکھنا چاہتے ہیں
عجب قصہ ہے کہ ہم وہ
ابھی تک سمجھ نہیں پائے
ابھی تک جان نہیں پائے
ابھی پہچان نہیں پائے
جو لکھنا ہے وہ لکھ نہیں پائے
جو سمجھنا ہے سمجھ نہیں پائے
کیا معلوم کیا لکھنا ہے
کیا معلوم کیا سمجھنا ہے
سمجھنے اور چاہنے میں
چاہنے اور سمجھنے میں
کتنی دیر لگتی ہے
کہو کیا دیر لگتی ہے
کہیں ایسا نہ ہو جائے
کہ ہم بس سوچتے جائیں
مگر کچھ جان نہ پائیں
اور کچھ بھی نہیں چاہیں
کہ ہم کچھ لکھ نہیں پائیں
قلم نہ ساتھ دے پائے
ورق کورا ہی رہ جائے
کسی بتنام منزل کے
کسی گمنام رستے کا
کسی بےنام خواہش کا
کسی ان دیکھے سپنے کا
کسی ان ہونی بستی کی
کئی انجانی گلیوں کا
ہر اک عنوان مٹ جائے
کہ ہم جو کہنا چاہتے ہیں
وہی ہم کہہ نہیں پائے
ادھوری سوچ کا کوئی
فسانہ کہہ نہیں پائے
ورق کورا ہی رہ جائے
بہت کچھ کہنا چاہتے ہیں
بہت کچھ لکھنا چاہتے ہیں
مگر ہم خود ابھی تک یہ
سمجھنے ہی نہیں پائے
کہ ہم جو کہنا چاہتے ہیں
وہی تو کہہ نہیں پائے
کہ اب تو دل بھی کہتا ہے
یہی اندیشہ رہتا ہے
ورق کورا نہ رہ جائے
ورق کورا نہ رہ جائے