وصال چُپ چاپ مر گیا ہے، اُسے نہ ڈھونڈو
فراق دل میں اُتر گیا ہے، اُسے نہ ڈھونڈو
وہ منزلوں کا پتہ ، ٹھکانہ بُھلا چکا تھا
جو راستے میں بچھڑ گیا ہے، اُسے نہ ڈھونڈو
عبث لکیروں کے جال میں ڈھونڈتے ہو اس کو
نصیب پھر ہاتھ کر گیا ہے، اُسے نہ ڈھونڈو
کہا تھا اس پر یقین تم مت بحال کرنا
وہ بات سے پھر مُکر گیا ہے، اُسے نہ ڈھونڈو
بتول اس کا بھی حال دل کی طرح ہوا ہے
جو ابر سورج کے گھر گیا ہے، اُسے نہ ڈھونڈو