وصل بخشے گا مجھ کو تو کب تک
دل میں رکھیے یہ آرزو کب تک
دشت کی رونقیں بڑھائے گی
تیرے وحشی کی ہاؤ ہو کب تک
میرے ساقی! ادھر بھی چشمِ کرم
تھامے رکھوں تہی سبو کب تک
کچھ بتاؤ کہ مجھ کو دیکھنا ہے
یہ تمناؤں کا لہو کب تک
جاری رکھیں گے تیرے دانشور
میری غربت پہ گفتگو کب تک
اپنے چہرے پہ بھی نظر کر لے
آئنہ میرے روبرو کب تک
میری مٹی ہے انتشار صفت
یوں سمیٹے گا مجھ کو تو کب تک
گمشدہ آدمی پریشاں ہے
لوگ کرتے ہیں جستجو کب تک
یہ بہاریں فصیح کب تک ہیں
رنگ و نکہت ہیں چار سو کب تک