آج شب کچھ تھکی تھکی سی ہے
یار جیسے تری کمی سی ہے
کچھ تو لمبے ہیں انتظار کے پل
کچھ گھڑی بھی رکی رکی سی ہے
چاندی اوڑھے اوس کی چادر
وصل یار کی گھڑی سی ہے
رکتی بارش ذرا ۔ وہ آ جاتے
صبح سے اک جھڑی لگی سی ہے
اٹھ رہی ہیں ہوس بھری نظریں
پھر وہ لڑکی ڈری ڈری سی ہے
کچھ تو غم ہے جو کہہ نہیں پاتا
اس کی آنکھوں میں کیوں نمی سی ہے
دیکھ کر تجھ کو لکھ رہا ہوں غزل
تو مرے سامنے کھڑی سی ہے
رات روئی ہے چہرہ کہتا ہے
اب بھی ہونٹوں پہ کپکپی سی ہے
یہ عیادت تری دم آخر
تعزیت سی ہے ۔ دل لگی سی ہے
مر گئی حس غم و خوشی کی حسن
زندگی اب تھمی تھمی سی ہے