فضائے غیر میں ہم نے کہے سخن کتنے
وطن سے دور کھلائے ہیں یہ چمن کتنے
دیار غیر میں گو دور ہیں سبھی اپنے
مگر ہیں ان کے تصور میں ہم مگن کتنے
کمی تو کوئی نہیں اجنبی سے دیس میں ،پر
یہ سوچتے ہیں کہ ہیں آج بے وطن کتنے
وہ قربتوں کا زمانہ تو کب کا بیت گیا
اب آ رہے ہیں ہمیں یاد وہ ملن کتنے
تم ان کو پڑھ نہ سکے دور ہم سے ہو بیٹھے
ہماری آنکھوں میں الفت کے تھے متن کتنے
تمھارے دل کے مکاں میں مقیم ہو نہ سکے
کیے تھے ہم نے تو اس واسطے جتن کتنے
سنوارتے تو مقدر بھی کس طرح زاہد
بدل کے دیکھے تھے اس زیست میں چلن کتنے
(یہ غزل ان پاکستانیوں کے لیے تحریر کی ہے جو روزگار یا کسی
اور سبب اپنے ملک سے دور ہیں۔ اور پھر خصوصا“ وہ لوگ
جو سات سمند پار بیٹھے بھی اردو ادب
کی خدمت کر رہے ہیں۔ یہ حقیقت میں انھیں میری طرف سے
خراج تحسین ہے۔۔۔۔۔ شبیب ہاشمی صاحب، عزرا ناز صاحبہ ،
اصغر صاحب، رضوانہ صاحبہ، ندیم مراد صاحب وغیرہ کو
اس سلسے میں سیلوٹ پیش کرتا ہوں ۔ اللہ ان سب
کو مزید لکھنے کی توفیق عطا کرے
آمین )