میں نے یہ سمجھا تھا ، میرا ہمزباں ہوجائیگا
کیا خبر تھی وہ بھی مجھ سے بد گماں ہوجائیگا
شہر میں فرقہ پرستی آگ برساتی رہی
رہنما کہتے رہے ، امن و اماں ہو جائیگا
کیب اور این آر سی کا، لا کے وہ باطل نظام
سوچتا ہے کہ وہ حق کا ترجماں ہوجائیگا
موسم گل پر تو مالی! اس قدر نازاں نہ ہو
موسم گل بھی کبھی نذر خزاں ہو جائیگا
یونہی تم سوتے رہے اب بھی ، تو اے اہل وطن
اپنا ہندوستان ، بے نام و نشاں ہوجائیگا
رہ نورد شوق! تنہائی سے گھبراتا ہے کیوں؟
دیکھنا ایک روز تو ہی کارواں ہوجائیگا
کمر ہمت باندھ اور ہوش و خرد سے کام لے
دیکھ! کیسے مہرباں ، رب جہاں ہوجائیگا
مجھ کو اے پیر فلک! چشم حقارت سے نہ دیکھ
ذرہء خاکی بھی اک دن ، آسماں ہوجائیگا
جس نے خود میرے نشیمن کو جلایا ہو شمیم!
کیسے کہدوں کہ وہ مجھ پر مہرباں ہوجائیگا