وعظ و نصیحت نہ کوٸی درس ، حرب کا چاہئے
دین بھی اب مجھ کو میرے ، مطلب کا چاہٸیے
چوری پہ قلم ہاتھ ، زِنا پہ سنگساری
قانون ایسا بھی نہ ، غضب کا چاہٸیے
مُلاّ دَستور کو تھوڑا سا چھیڑ لینے دے
تخت نشیں رہنے کو مجھے ساتھ ، غرٗب کا چاہٸیے
زبانِ سُخن گو پر فقط شاہ کے قصیدے ہوں
حال کچھ ایسا انہیں ، ادب کا چاہٸیے
اخلاق تمہیں جن سے توقع ہے نظامِ حجاز کی
انہیں تو اب نظام موجودہ ، عرب کا چاہٸیے