وفا کی راہ پہ چل کے یہ پائی کیسی سزا
ملے ہیں درد و الم مجھ کو بس ملی ہے جفا
عزیز لوگوں کو اپنا مفاد ہوتا ہے
کسی کے غم میں کسی نے نہیں ہے ساتھ دیا
منافقت میں وہ اوروں سے بڑھ کے ہی نکلا
کبھی جو مجھ کو لگا تھا زمانے بھر سے جدا
سمجھ یہ بیٹھا تھا رستہ کٹھن تمام ہوا
جو دیکھا سامنے صحرا کے بعد تھا صحرا
ہیں تیرے بعد بھی نغمے ترے ، تری یادیں
کہ گونجتی ہے فضاؤں میں اب بھی تیری صدا
یہ طے ہے دوست تو اب لوٹ کے نہ آئے گا
مگر یہ در تو رہے گا ترے لیے ہی کھلا