وقت بدلتا رہتا ہے انسان بدلتے رہتے ہیں
مخلوُق بدلتی رہتی ہے ادیان بدلتے رہتے ہیں
کبھی مارا مارا پھرتا ہے روزگار ملے نہ انساں کو
یہ ترسی ترسی دُنیا ہے یہاں پیار ملے نہ انساں کو
یہاں انساں بُہت ا کیلا ہے دلدار ملے نہ انساں کو
یہ دُنیا کیسی دُنیا ہے اسرار ملے نہ انساں کو
یہاں انساں ہی اس دُنیا کی داستان بدلتے رہتے ہیں
وقت بدلتا رہتا ہے انسان بدلتے رہتے ہیں
یہاں ہر پل پھُول بکھرتے ہیں یہاں کلیاں مّسلی جاتی ہیں
یہاں دلوں کے سود ے ہوتے ہیں آرزُوئیں کچُلی جاتی ہیں
یہاں اّرماں کب نکلتے ہیں یہاں عزتیں ا ُتاری جاتی ہیں
یہاں جسموُں کا بیوپار بھی ہے اور عصمتیں لوُٹی جاتی ہیں
روٹی کے ُٹکڑے کی خاطرایمان بدلتےرہتے ہیں
وقت بدلتا رہتا ہے انسان بدلتے رہتے ہیں
کبھی اپنے دیس میں پرد یسی انسان کو بننا پڑتا ہے
کبھی فرض کی خاطر بن باسی انسان کو بننا پڑتا ہے
کبھی مجبُوری میں مُجرم بھی انسان کو بننا پڑتا ہے
اپنوُں کے ہا تھوُں دُکھی بھی انسان کو بننا پڑتا ہے
مفادات کی خاطر یہاں پیمان بدلتے رہتے ہیں
وقت بدلتا رہتا ہے انسان بدلتے رہتے ہیں
انسانوں کے جنگل کو اب چھوڑ ہی دینا بہتر ہے
اس جنگل کے قانون کو اب توڑ ہی دینا بہتر ہے
اب نفرت کے دریاؤں کا رُخ موڑ ہی دینا بہتر ہے
انساں کےسوئے ضمیرکو جّھنجھوڑ ہی دینا بہتر ہے
اب راہ پہ لانا ہے ان کو نادان بدلتے رہتے ہیں
وقت بدلتا رہتا ہے انسان بدلتے رہتے ہیں