وقت کے ایوانوُں میں جب دھوُپ جھلملا تی ہے
بے تاب آرزُوؤں کی رُوح ُمسکراتی ہے
نغمہ آزادی جب ساز دل پہ چھڑتا ہے
آزادی بھی جھوُم کے نغمے گُنگناتی ہے
جب کھوکھلے جسموُں میں جذبہ جاگ اُٹھتا ہے
تب قومیت کے جذبوُں سے زندگی اُمڈ کےآتی ہے
خواہشوُں کے غلاموُں کی حالت کا کیا پوُچھنا
ان کھوکھلے جسموُں میں رُوح تڑپ تڑپ جاتی ہے
بے چین وادیوُں میں جب جسم کٹ کے گرتے ہیں
تب قوموُں کی سالمیت کی تاریخ لکھی جاتی ہے
ڈ ر، خوف اور یاس اک ایسی پیاس ہے
جو آزادی کے جذبوُں کا نہ ہر گز لباس ہے