روایتوں کے گہرے جنگل میں
تنہائیوں کے سائے ہیں
بے بسی کے سمندر میں
اپنے سب پرائے ہیں
رواجوں کی صلیب پہ
آج بھی میں تنہا ھوں
جلتی دھوپ کی بانہوں کا
ٹوٹا ہوا کنگنا ہوں
ظلم کے بازار میں
اپنوں کے دربار میں
میری بھینٹ چڑھا دی
سب نے
ونی کے کاروبار میں