وہی ہوا ناں؟
لوگوں کی باتوں میں آ کر تم نے
دردِ دل کا روگ پالا
خود سے وآبسطہ خواہشوں کا
پَل میں گَلا گھونٹ ڈالا
کسے خبر تھی وفا کے رستے چلتے چلتے
خوشی کے پیروں پر ابلوں کا نشاں بھی ہوگا
محبتوں کی سلیب پر نفرتوں کا یہ المیہ بھی ہوگا
غرض یہ کہ
تم خفا ہو ، تم جدا ہو ، اور بے وجہ ہو
غرض یہ کہ
میں جفا ہوں ، بددعا ہوں ، اور بے وفا ہوں
جو میرے بس میں ہو اگر تو
تمھاری خاطر میں اپنی آنکھوں سے خون رو لوں
عزیز رکھوں تمھارے غم کو اِک لمبی عمر کی نیند سو لوں
جو تم کہو تو رتجگوں کے عذاب سہہ لوں اور کچھ نہ بولوں
مگر خلش ہے یہ مجھکو جاناں
کہا تھا میں نے
خزاں کا موسم قریب تر ہے
ہوا کے جھونکوں سے بچ کر رہنا
مگر بدگمانی کی حد یہ ہے
تم نے مجھ کو ہی غلط جانا
وہی ہوا ناں؟
جس کا ڈر تھا