وہ تیرے پیارکے عھدوپیمان ٹوٹ گئے
ترا تو کچھ نہ گیا میرے مان ٹوٹ گئے
کڑی ہے دھوپ سفر بھی بہت ضروری ہے
رہا نہ سایہ سبھی سائبان ٹوٹ گئے
تھا زلزلوں کا اثریوں تو ہر عمارت پر
فقط غریبوں کے کچے مکان ٹوٹ گئے
چلاتے کشتی کو کیسے کھلے سمندر میں
ہوائیں تیز تھیں اوربادبان ٹوٹ گئے
جو پارساؤں کو دیکھا قریب سے زاہد
تو ان کے بارے میں اچھے گمان ٹوٹ گئے