وہ جنوں جو مایوسیوں کی نذر ہو رہا ہے
وہ کامیابی جو سفارشوں کی مرہونٍ منت ہے
بُجھ رہے ہیں مسلسل اُمیدوں کے چراغ پھر بھی
میرے آنگن میں تارے ان گنت ہیں
پھول گلشن میں میں کھلتے جا رہے ہیں
کلیاں زمیں پر بکھرتی جا رہی ہیں
جسم آسائشوں کے طلب گار بنتے جا رہے ہیں
خواہشیں دل میں مگر مرتی جا رہی ہیں
اندھیرا روشن آنکھوں میں بھی گھر کرچکا ہے
روشنی دن میں بھی ڈھلتی جا رہی ہے
روح کو ہے کسی روح پرور منظر کا انتظار
کہ آخر آئے گی خٍزاں میں بھی بہار
پھر ہوگی ختم یہ شبٍ انتظار
مٹی کا مادھو اب قبر ہو رہا ہے
وہ جنوں جو مایوسیوں کی نذر ہو رہا ھے
وہ کامیابی جو سفارشوں کی مرہونٍ منت ہے