وہ رستے ہمارے جُدا سوچتے ہیں
حقیقت سے ہیں آشنا سوچتے ہیں
بہم سامنے ہم کبھی بھی نہ آئیں
وہ ہیں اتنے مجھ سے خفا سوچتے ہیں
کوئی نام بھی میرا محفل میں نہ لے
یہی دل میں وقتِ دعا سوچتے ہیں
نہیں کرتے یہ سوچ کہ چاند کی دید
ملی مثل میری جفا سوچتے ہیں
گلہ سوچتے ہیں جو شب بھر ہے کرنا
گلہ وہ ہی پہلے کِیا سوچتے ہیں
نہ لے جائے خط میرا قاصد وہاں پر
ہمیشہ یہ میرے پیا سوچتے ہیں
عیاں ہے میرے دل پہ شیشے کی مانند
جو چہرہ وہ اپنا چھپا سوچتے ہیں
ہیں شرماتے جب دیکھتے ہیں وہ شیشہ
مجھے پاس اپنے وہ کھڑا سوچتے ہیں
رہیں گے روابط ہمارے ہمیشہ
یہی لوگ سب با وفا سوچتے ہیں
وہ عامر کے بارے میں کیا سوچتے ہیں
کبھی اچھا اکثر بُرا سوچتے ہیں