بہاروں کا سماں بھی کھو گیا ہے
نظاروں کا جہاں بھی سو گیا ہے
گھڑی بھر کو ہوا مجھ سے مخاطب
سمجھتا ہے وہ رسواء ہو گیا ہے
تجھےاپنا سمجھ کر سوچتے ہیں
ہمارے سنگ زمانہ ہو گیا ہے
وہ میری بات کیوں نہیں سنتا ہے
خفا شاید وہ مجھ سے ہو گیا ہے
خیالوں میں ایسے مدہوش ہوگیا
تھکا ماندہ کوئی ٹک سو گیا ہے
بند آنکھوں میں جسے دیکھتی ہوں
کھلی آنکھوں سے اوجھل ہوگیا ہے
تیری آنکھوں کے گہرے دائروں میں
میرا سراپا ساکت ہوگیا ہے
مجھے جو چاند رات پر بھیجا
وہ تحفہ عید جیسا ہو گیا ہے
یہ دکھ عظمٰی برابر درد دے گا
وہ تیرا ہو کہ تجھ سے کھو گیا ہے