یہ میری ذات تیرے لطف کے حصار میں ہے
ثبوت ہے یہ تپش دل کے جو شرار میں ہے
تمہارا بندہ مجبور کس شمار میں ہے
وہ سب فریب ہے جو کچھ بھی اختیار میں ہے
ادھر اجل تو بلانے کے انتظار میں ہے
ادھر حیات ہے کہ ہستی کے اعتبار میں ہے
یہی تو اہل چمن آج تک سمجھ نہ سکے
کہ آج بھی یہ چمن کس کے اختیار میں ہے
کسی کے آگے وہ مجبور رہ نہی سکتا
وہ ذی شعور تمہارے جو اختیار میں ہے
وہ مجھ کو بھول بھی جائیں تو کیا گلہ ہے نوید
میں اس کو یاد کروں یہ تو اختیار میں ہے