میں تم سے جب دور ہورہا تھا
ستارے بام فلک سے منہ میرا تک رہے تھے
ہوائیں رہ رہ کر چل رہی تھیں
وہ فصل سرسوں کی جو ابھی تک پکی نہیں تھی
وہ میرے قدموں سے بے سبب ہی الجھ رہی تھی
مسافتوں کی تھکان اوڑھے
پرندے اپنے گھروں کی جانب رواں دواں تھے
تمہارے گھر کی طرف جو پگڈنڈی جا رہی تھی
اسی سے کچھ دور دائیں جانب
جو پیڑ پیپل کا تھا
وہ بالکل خموش تنہا کھڑا ہوا تھا
وہ شام جب سارے وعدے، قسمیں
بھلا کر ہم دور ہو رہے تھے
وہ شام آنکھوں میں بس چکی ہے
وہ شام، پیپل کے اک طرف سے
جو چاند چہرہ دکھا رہا تھا
وہ چاند بھی کتنا غمزدہ تھا
وہ چاند تھا رازدار الفت
اسے پتہ تھا
کہ پیار کی راہ کے مسافر
بھٹکتے رہتے ہیں خواب کی اجنبی فضا میں
گواہ ہے عالم محبت
کہ ان کو منزل ملی نہیں ہے
دلوں میں ان کے
کلی خوشی کی کھلی نہیں ہے
وہ شام آنکھوں میں بس چکی ہے
تمہاری آنکھوں میں حسرتوں کے چراغ سارے
اب ایک اک کر کے بجھ رہے تھے
وہ وقت آیا
جب دور تم مجھ سے جا چکے تھے
میں اپنے خوابوں کو دفن کرنے میں آہ!! کچھ ایسے کھو گیا تھا
مجھے پتہ ہی نہیں چلا
کہ رات کب آئ کب گئی کب فلک سے سورج نے منھ نکالا
پتہ چلا تب
جب زندگی اس جہاں میں پھر سے گھسیٹ کر مجھ کو لا چکی تھی
سفیدی بالوں میں آچکی تھی