وہ شب کی رعنایاں جنہیں سَحَرگاہ نہیں ملتی
مۂ مجھ میں مدھوش کوئی ارواح نہیں ملتی
گرد کے کئی نظارے جو دل نشین کردیتے ہیں
بھٹک کر مسافروں کو پھر کوئی راہ نہیں ملتی
کسی کو ستاکر ایسے صدا لیئے نہ گذرو
کلیجا تھم جائے تو کوئی آہ نہیں ملتی
اِن خواہشوں کو تھوڑا جسامت میں رکھو
بے جا خیالوں کو تو کبھی پرواہ نہیں ملتی
وہ چھلکے بھی تو بہکنے کو ساعت نہ ملی
کس نے کہا نینوں میں آب سِیاہ نہیں ملتی
اپنی جان فشانی پر یہ جہاں بسا ہوا ہے
اِس وقت سے سنتوشؔ کوئی نرواہ نہیں ملتی