تعلق کو اب بھی نبھا میں رکھتا ہے
وہ مجھے اپنے دستِ دعا میں رکھتا ہے
منزل ہے وہ میری اسے معلوم ہےیہ بھی
اور ایسا کہ مجھےاکثر راہ میں رکھتا ہے
رقابت میں معترف ہے مخلصی کا میری
تعصب میں بھی مجھے اہلِ وفا میں رکھتا ہے
قربتوں سے گُریزں ہے آج بھی وہ
حیراں ہوں مجھےپھر بھی دعا میں رکھتا ہے
عیب ہیں ہزاروں میرے نظر میں اس کی
مہرباں ہے مجھے پھر بھی عطا میں رکھتا ہے
زمانہ ہو صلیب جسے کوئی عنبر
حق پرست ہر ایک کو سزا میں رکھتا ہے