وہ میزباں ہو میرے دِل کا یہ ارمان رہا
جو میرے دِل کا مکیں ہے وہی مہمان رہا
میرے غمخوار میرے درد آشنا سن لے
میرے جیون میں خوشی کا تو ہی سامان رہا
میں تیری زندگی کا ایسا راز ہوں کہ جِسے
تو جانتے ہوئے بھی جانے کیوں انجان رہا
کبھی جنوں تو کبھی اہلِ خِرد کے ہاتھوں
کوئی نہ کوئی میرے سامنے طوفان رہا
کئی منظر دِکھائے ہیں جہان والوں نے
میری نظر میں مگر ایک ہی جہان رہا
میں جاندار ہوں کہتا رہا یہ سب سے مگر
کِسی نے کچھ نہ سنا اور میں بےجان رہا
ستم شعار نے ستم کیا، تو کیا غم ہے
ستم کے بعد، سنا ہے، وہ پشیمان رہا
میرے عدو میری حالت پہ پریشان رہے
یہ جان کر میں بڑی دیر تک حیران رہا
جِس کی پاکیزہ نگاہی کی گواہ دنیا ہے
میری نظر میں آج تک وہ نوجوان رہا
برق رفتار وقت کی پکار ہے کہ یہاں
کوئی دارا، نہ سکندر، نہ ہی خاقان رہا
جِسے دنیا حقیقت جانتی رہی عظمٰی
خیالِ خام وہ محض غلط گمان رہا