وہ ُرکتا اگر تو میرے
صبر کا پیمانہ ٹوٹ جانا تھا
جن اشکوں کو خود سے چھپا کر رکھا ہے
انہوں نے سرے عام محفل میں چھلک جانا تھا
میں کس طرح چھپاوں درد کو اپنے دل میں لکی
ُاس کا نام لکھتی اگر تو دیے کی طرح جل جانا تھا
دنیا کے کتنے ستم تو میں ُاٹھا چکی تھی
وہ سمجھتا اگر تو کہاں ُاس نے چھوڑ جانا تھا