وہ کون لوگ ہیں جو مے ادھار لیتے ہیں
یہ مے فروش تو ٹوپی اتار لیتے ہیں
یہ پاس پردہ نشینوں کا ہے کہ نالے بھی
جو اونچے ہوتے ہیں پردہ پکار لیتے ہیں
وہ کہتے ہیں ابھی اللہ اتنی طاقت ہے
جو کروٹیں کبھی ہم بے قرار لیتے ہیں
بچائیں گے گل و بلبل کو دام گلچیں سے
جو کوئی پہنچے تو فصل بہار لیتے ہیں
یہی ہیں کام نکلتا ہے جن کا بے طاعت
مزے کرم کے ترے شرمسار لیتے ہیں
اترتے عرش سے ڈرتا ہے تو دعا والے
اثر کو ہاتھ بڑھا کر اتار لیتے ہیں
شراب کے لیے مے نوش منہ ہیں پھیلائے
جمھائیاں نہیں وقت خمار لیتے ہیں
گناہ گار ہیں اتنے ہی ان بتوں کے ہم
کہ پانچ وقت خدا کو پکار لیتے ہیں
جما یہ رنگ کہ اب وقت زمزمہ سنجی
چمن میں مجھ کو عنادل پکار لیتے ہیں
پئے ہوں کتنی ہی لیکن یہ ہوش رہتا ہے
کہ سوتے وقت وہ زیور اتار لیتے ہیں
ریاضؔ باتوں میں اپنی اگر نہیں جادو
پری کو شیشے میں یوں ہی اتار لیتے ہیں