وہ دور کی کوڑی لاتا ھے
پر آپنے آپ سے بیگانہ ھے
آئینہ سے باتیں کرتا ھے
پر آپنے آپ کو کوسستا ھے
جنگل میں منگل ھے
پر شہر میں ویرانہ ھے
وہ پرائیوں پہ جان دیتا ھے
پر آپنوں کی جان لیتا ھے
وہ سچ کی اوتھ اٹھاتا ھے
پر جھوٹ کی سند جاری کراتا ھے
وہ انصاف کے بول پر مرتا ھے
پر خود ھی جرم کرواتا ھے
وہ اپنے ہاتھوں باغیچہ لگاتا ھے
پر خود ھی پھولوں کو پاوں تلے روندتا ھے
وہ آمین ھےرازداروں کا
پر خود ھی سب کچھ آفشا کرواتا ھے
یہ کون کیوں اور کہا ھے
ہر زباں پہ سوال اتا ھے
یہ میں تم اور ہم سب ہیں حیدر
پر نہیں ھے جان بوجھ
ھر کوئ بھول کراتاھے