ویران دل کی بستیاں آباد نہ ہونگی
دل میں تیری یادیں اگر آباد نہ ہونگی
دن رات تیری یاد میری زندگی رہی
یادیں نہ ہوں ویرانیاں برباد نہ ہونگی
بہت ویران اور سنسان رہ جائے ہمارا دل
اگر اس میں ہماری خواہشیں آباد نہ ہونگی
دیار غیر میں تم نے بسیرا کر لیا آخر
ہمارے شہر کی گلیاں تمہیں اب یاد نہ ہونگی
عنادل گنگنانا چھوڑ دے باغ بہاری میں
تو کلیاں بھی گلستاں میں کبھی دلشاد نہ ہونگی
جنہیں صیاد نے پر کاٹ کے آزاد کر دیا
وہ پریاں اب کبھی آزاد بھی آزاد نہ ہونگی
جنہیں رب کی رضا کے نام پہ حاصل کیا جائے
وہ دنیائیں زمانے میں کبھی برباد نہ ہونگی
جو مظلوموں پہ ناحق ظلم و قتل و خوں روا رکھیں
وہ غاصب قومیں دنیا میں کبھی آباد نہ ہونگی
ساری حسرتیں عظمٰی مجھے مغلوب کر دیں گی
میرے دل کی تمنائیں اگر آزاد نہ ہونگی