ہم نہ ملیں تو اچھا ہے ملے تو بھرم ٹوٹ جائے گا
سَندر سپنوں کا تاج محل ملتے ہی ٹوٹ جائے گا
یہ جو اپنے درمیاں مبہم سا اک ناطہ ہے
دیکھ لینا ایک دن یہ ناچہ ٹوٹ جائے گا
میرے دستِ تخیل نے جو دامن تھام رکھا ہے
حقیقت سامنے آتے ہی یہ دامن چھَوٹ جائے گا
یہ سچے افسانے ہیں دَور کے ڈھول سَہانے ہیں
وہ جو میرے پاس آیا تو مجھ سے روٹھج جائے گا
عظمٰی وہ مجھسے کہتا ہے وہ مجھسے راضی رہتا ہے
وضع داری کا یہ رشتہ بھی آخر ٹوٹ جائے گا