عاشق کی آہ و زاری پہ نالوں پہ ٹیکس ہو
سب مہ وشوں پہ ماہ جمالوں پہ ٹیکس ہو
گر زلف تا کمر ہے تو بالوں پہ ٹیکس ہو
ہوں سرخ سرخ گال تو گالوں پہ ٹیکس ہو
ہو قاتلانہ چال تو پیسے ادا کرو
ورنہ جہاں پڑے ہو وہییں پر پڑے رہو
عاشق کا اس زمانے میں پتلا وہ حال ہے
اب مفلسی میں عشق بھی کرنا محال ہے
کوچہ میں اس کے ٹیکس کا ٹیڑھا سوال ہے
مرئیے بغیر ٹیکس‘ یہ کس کی مجال ہے
مردہ پڑا رہے گا نہ دفنایا جائے گا
پروانہ لکھ کے ٹیکس کا جب تک نہ آئے گا