پاس آنے کی مری جاں کویٔ صوُرت بھی تو ہو
میں چلی آؤ ں تجھے میری ضرورت بھی تو ہو
تُو خفا ہے تو منانا بھی مجھے آتا ہے
پر تِرے پاس کویٔ وجۂ کدوُرت بھی تو ہو
کون جانے کہ مِرے دِل پہ ہیں گھاؤ کِتنے
زخمِ گننے کی کسی دِن مجھے فرصت بھی تو ہو
بھول جاؤں میں سبھی تیری جفایںٔ پل میں
شرط یہ ہے کہ تجھے مجھ سے محبت بھی تو ہو
کیسے ممکن ہے کہ دِل پر نہ اثر ہو کے رہے
تیرے جذبوں میں مگر تھوڑی صداقت بھی تو ہو
سننے والوں کو نہ مسحوُر کریں کیوں عذرا
تیرے اشعار میں لیکن کویٔ نُدرت بھی تو ہو