پاک فوج زندہ باد
Poet: حیات By: salma mahmood, karachiپاک فوج تیری ہمت کو سلام
جوخاکی وردی والے ہیں وہ بڑے عزیز ہوتے ہیں
وہ اپنا آپ بھول کر سب، ہم کو دے کرجاتے ہیں
اُنکے دل کی دھرکن میں ہم ہر لمحہ لمحہ بستے ہیں
وہ اپنی نینداڑا تےہیںہم چین سے یوں سو جاتے ہیں
نہ فکر کوئی حفاظت کی نہ پہرے کی پروا کوئی
جوخاکی وردی والے ہیں وہ بڑے عزیز ہوتے ہیں
میرے ملک کے کونے کونے میں وہ نیند بھلائے بیٹھیں ہیں
نہ انکو ہوش ہےکھانے کا نہ اپنی خبر رکھتے ہیں
بڑے پیار سے وہ کہہ جاتے ھیں تم سو جاو ہم جاگے ہیں
کیا تم کو کچھ احساس بھی ہے ؟ جو خاکی وردی والے ہیں
وہ ماں کے راج دلارے ہیں بہنوں کے آنکھ کے تارے ہیں
بیٹی کے دل کی دھڑکن ہیں بیگم کے وہ تو سب کچھ ہے
کیا تم کو کچھ احساس بھی ہے ؟وہ اپنوں کو یوں چھوڑ کر
کیوں دور یوں ہو جاتے ہیں؟
میرے ملت کے اےلوگو!
وہ تمہاری حفاظت کرتے ہیں تم سب پہ وہ جان دیتے ہیں
وہ خاکی وردی والے جو اپنوں کے چاند تارے ہیں
تم سب کی خاطر وہ تنہا اپنوں سے دور جاتے ہیں
تم سب کبھی یہ نہ بھولنا وہ تم سے محبت کرتے ہیں
انہیں موت کی بھی کوئی فکر نہیں، وہ کفن لپیٹے جیتے ہیں
موت ازخود انکی انکھوں میں انکھیں ڈالے یہ کہتی ہے
مجھے تم سے خوف آتی ہے تم مر کے بھی تو جیتے ہو
اے کبھی نہ سونےوالو تم پر نیند بھی رشک کرتی ہے
تم کو پاس لانے کی خاطر وہ ھر لمحے ترستی ہے
تم ہم سب کی خاطر جو اپنا سب کچھ یوں بھلا بیٹھے ہو
میں ایک ننھی سی لڑکی صحیح، تم سے یہ وعدہ کرتی ہوں
رہتی دنیا تک نام تمہارا سینے میں سجا کر رکھیں گے
احسان تما را بھولیں گے نہ بھولنے دیں گے دنیا کو
ہم سب تمہیں جھک جھک کے اپنا سلام کہتے ہیں
تم کو دعا ہم کیا دیں گے تم مر کےبھی تو جیتے ہو
زندہ ہو توغازی ہو تم مرتے ہو پھر بھی زندہ ہو
جنت تمہاری امانت ہے جو تمکو ملنی ملنی ہے
ہم کیا دعا تم کو دیں گے بس تم کو سلام کہتے ہیں
پاکستان زندہ باد
پر یہ امکان بھی اب زخمِ گُماں بن بیٹھا
کچھ نظر آئے تو لگتا ہے وہی تُو شاید
کچھ نہ ہو سامنے، تو دردِ جہاں بن بیٹھا
عشق؟ ہاں، عشق بھی اک کھیل سا لگتا ہے مجھے
جس میں ہر وار پہ دل ہی بے زباں بن بیٹھا
میں نے خود کو تری چاہت میں مٹا کر دیکھا
اب وہ خالی سا وجودِ ناتواں بن بیٹھا
کون سنتا ہے یہاں شورِ سکوتِ دل کو
میں ہی اک شمع تھا، خود خاکِ دھواں بن بیٹھا
میں نے مانا تھا کہ احساس ہی پوجا ٹھہرے
پر یہ احساس بھی اب ترکِ زباں بن بیٹھا
تُو اگر خواب میں آئے تو اجالہ پھیلاؤ
ورنہ خوابوں کا ہر اک زخمِ نہاں بن بیٹھا
ایک چہرہ تھا مرے دل کی دعا کے اندر
اب وہی چہرہ مرا دشتِ فغاں بن بیٹھا
کبھی لگتا ہے کہ میں خود سے جدا ہو جاؤں
اور کبھی خود ہی مرا سائۂ جاں بن بیٹھا
میں نے سوچا تھا تری یاد سے جا پاؤں کبھی
پر وہی یاد مرا عینِ اماں بن بیٹھا
اسدؔ اب یاد بھی آتی ہے تو جلتا ہوں میں
جیسے ماضی کوئی خنجر کی زباں بن بیٹھا
ہٹا دے تیرگی تنویر میرے ہاتھ پہ رکھ
میں تھوڑی دیر میں اک جرم کرنے والا ہوں
تو ایسا کر مری تعزیر میرے ہاتھ پہ رکھ
میں کتنے روز سے خط کی مہک کو ڈھونڈتا ہوں
سو جھوٹ موٹ کی تحریر میرے ہاتھ پہ رکھ
بہت سے لوگوں کے حق تُو دبا کے بیٹھا ہے
مشقتوں کا صلہ مِیر! میرے ہاتھ پہ رکھ
نہیں سدھرنا تو پھر ساری کوششیں بیکار
تو چاہے جتنی بھی تفسِیر میرے ہاتھ پہ رکھ
تو میرا دوست ہے شعروں کو میرے دیکھ ذرا
جو ہو سکے ہے تو تاثیر میرے ہاتھ پہ رکھ
مرا وجود تو یوں بھی ہے تیرے ایماء پر
مجھے تو ڈال کے زنجیر میرے ہاتھ پہ رکھ
معاملات ترے ساتھ طے کروں گا میں
مگر تُو پہلے تو کشمیر میرے ہاتھ پہ رکھ
تجھے بھی ہو مری بے کیفیوں کا اندازہ
کبھی تو دل کو ذرا چِیر میرے ہاتھ پہ رکھ
کہانیاں نہ رہیں اب، نہ رنگ آمیزی
محبتوں کی اساطیر میرے ہاتھ پہ رکھ
رشیدؔ اس کے عوض جھونپڑی نہ چھوڑوں گا
بھلے تو ساری ہی جاگیر میرے ہاتھ پہ رکھ
سَچ ہے کہ بہت سے مُحبت کے نام پر کھِلواڑ کرتے ہیں
یہ خوابوں کی بَستی کہاں سَچ مِلتا ہے وَفا والو
یہ جھُوٹی دُنیا میں اَکثر اپنے دِل کو بَرباد کرتے ہیں
یہ راہوں میں سَچّوں کے پیچھے پھِرنے والے کم ملِتے
یہ لوگ تو بَس دُکھ دے دِلوں کو بَرباد کرتے ہیں
یہ سچّے جَذبوں کا گہوارہ اَکثر سُونا ہی رہتا ہے
یہ پیار کے نام پر لوگ فَقط شاد کرتے ہیں
یہ دُنیا َبس نام کی خوشیاں سچّے دِلوں کو کب مِلتی؟
یہ راہوں میں اَکثر اپنی سچَّائی کو بَرباد کرتے ہیں
یہ خَلوص کا سایا بھی اَب نایاب نظر آتا ہے ہم کو
یہ مَطلب پَرَست فَقط چہرے ہی آباد کرتے ہیں
یہ وَعدوں کا موسم کب رَہتا ہے گُزر جاتا ہے لَمحوں میں
یہ رِشتوں کے نام پر اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
یہ سَچّے جَذبے بھی مظہرؔ دُکھ سَہتے سَہتے چُپ ہو جاتے
یہ لوگ تو َبس اَپنے مَطلب سے اِرشاد کرتے ہیں
مظہرؔ تُو سَچّوں کے سَنگ چَل بیکار نہ کر دِل کو
یہ جھُوٹ کی دُنیا والے اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں







