برگشتہ ہے خوشی سے خوشی گرچہ پاس ہے
پا کر بھی تجھ کو زیست مری کیوں اداس ہے
بے برگ ہو رہے ہیں شجر کیوں بہار میں
کیوں خشک بارشوں میں بھی گلشن کی گھاس ہے
مصری ہے شیریں لب کی حلاوت سے بے خبر
مے مستیء نظر سے ابھی ناشناس ہے
شعلے گرا رہی ہے ہر اک سمت چاندنی
ساحل سلگ رہا ہے سمندر کو پیاس ہے
آہنگ بدل گیا ہے محبت کے ساز کا
اب نغمہء طرب میں بھی خوف و ہراس ہے
دیکھا کہ ایک خاک بسر شاد ہے بہت
نزدیک اس کے چاند نگر محو یاس ہے