پتھر مزاج آنکھ سے جاتا رہا ہے نم
روتی سسکتی رات کا غم کیا کرینگے ہم
آشفتگان شہر! کہیں دور جا بسیں
شام الم کی پیٹھ سےکچھ بوجھ تو ہو کم
لگتا ہے زندگی سے نباہ کر لیا کہ اب
لب پہ کوئی گلہ ہے نہ دل میں کوئی بھرم
بے سدھ پڑا ہے تب سے، حرارت نہیں رہی
منزل کے اک فریب سے نکلا تھا جا کہ دم
کیاشان سے کھڑے ہو، بہت خوب مگر دوست
وہ لوگ کیا ہوئے جو تجھے دے رہے تھے خم؟