اسی اکیلے پہاڑ پر تو مجھے ملا تھا
یہی بلندی ہے وصل تیرا
یہی ہے پتھر میری وفا کا
اجاڑ چٹیل، اداس، ویراں
مگر میں صدیوں سے اسی سے لپٹی ہوئی کھڑی ہوں
پھٹی ہوئی اوڑھٹی میں سانسیں تری سمیٹے
ہوا کے وحشی بہاؤ پر اُڑ رہا ہے دامن
سنبھالا لیتی ہوں پتھروں کو گلے لگا کر
نکیلے پتھر
جو قوت کے ساتھ میرے سینے میں گہرے اتر گئے ہیں
کہ میرے جیتے لہو سے سب آس پاس رنگین ہو گیا ہے
مگر میں صدیوں سے اس سے لپٹی ہوئی کھڑی ہوں
اور ایک اونچی اڑان والے پرندے کے ہاتھ
تجھ کو پیغام بھیجتی ہوں
تو آ کے دیکھے
تو کتنا خوش ہو
کہ سنگریزے تمام یا قوت بن گئے ہیں
دمک رہے ہیں
گلاب پتھر سے اُگ رہا ہے