میری پردرد آہوں میں کہاں تاثیر رہی
انکے دل پر بھی کبھی نقش میری تحریر رہی
اک سنگ تراش آہینہ تراشنے بیٹھا
سسکتے شیشے کی حالت بڑی دلگیر رہی
تہی دست نہ سمجھو یہ مرتبہ دیکھو
تنہائی کی پوری بستی میری جاگیر رہی
تیرا نالہ پردرد کیوں ہے بلبل مجروح
تیری سسکی جگر گل کو آج چیر رہی
وصال یار سے خوش خواب میں صادق لیکن
جدا ہوجائیں گے انکی یہی تعبیر رہی